Afghanistan’s Betrayal: How Pakistan’s Generosity Was Repaid with Terrorism
افغان رویہ: پاکستان کا صبر، مہمان نوازی اور مسلسل دھوکہ
تحریر: عبدالوحید
جب 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا، تو دنیا کے بیشتر ممالک نے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ خوش آمدید کہا۔ لیکن ایک ہمسایہ ملک ایسا تھا جو اس وقت بھی پاکستان کو برداشت نہ کر سکا – افغانستان۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان وہ پہلا اور واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ شاید اسی لمحے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک غیر رسمی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اُس دن سے آج تک افغانستان نے پاکستان کے خلاف دشمنی کے بیج بوئے اور انہیں آبیاری دی، کبھی پشتونستان کے نام پر، کبھی بھارت کے اشاروں پر، اور کبھی دہشت گردوں کی پشت پناہی کے ذریعے۔
پشتونستان کا فریب یا ایک سازش؟
افغان حکومتوں نے ہمیشہ پاکستان کے اندر عدم استحکام پھیلانے کے لیے “پشتونستان” کا راگ الاپا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی پشتون آج افغانوں سے کئی گنا زیادہ خوشحال، تعلیم یافتہ اور مطمئن ہیں۔ لیکن افغان قیادت نے حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے دشمنی کو ہوا دی۔ 1949 میں کابل حکومت نے پاکستان سے کیے گئے تمام معاہدے کالعدم قرار دے دیے اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں مداخلت کی کوشش کی۔
افغان حملے اور پاکستان کا ضبط
1960 اور 1961 میں افغان فوج نے پاکستانی علاقوں پر حملہ کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے سفارتی تعلقات منقطع کیے۔ ان جھڑپوں سے ایک بات واضح ہوئی کہ افغانستان کبھی پاکستان کو دل سے قبول نہیں کر سکا۔
پھر 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، اور پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنے دل اور سرزمین پر جگہ دی۔ ان مہاجرین کو تعلیم، روزگار، کاروبار اور تحفظ ملا۔ لیکن بدقسمتی سے اسی مہمان نوازی کے پردے میں دشمن داخل ہو گیا۔
افغان سرزمین: دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ
1980 کی دہائی میں افغانستان میں ببرک کارمل اور نجیب اللہ جیسے کمیونسٹ حکمران آئے، جنہوں نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ دہشت گرد گروہ، خودکش حملہ آور، منشیات فروش – سب کو یہاں محفوظ پناہ گاہیں میسر رہیں۔
2001 کے بعد بھارت نے افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی، لیکن یہ سرمایہ کاری صرف ترقیاتی منصوبوں کے لیے نہیں تھی – اس کا اصل ہدف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی RAW اور افغان انٹیلیجنس NDS نے مل کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی راہیں ہموار کیں۔
ٹی ٹی پی اور افغان طالبان: منافقت کی انتہا
تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) ایک سفاک دہشت گرد تنظیم ہے جس نے پاکستان میں سینکڑوں معصوم جانوں کا خون بہایا۔ اس تنظیم کے سرغنہ آج بھی افغانستان میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ طالبان حکومت نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ پاکستان سے “مذاکرات” کا مشورہ بھی دیا۔
ایک طرف افغان طالبان خود کو اسلامی حکومت کہتے ہیں، دوسری طرف اپنے مسلمان ہمسایہ ملک کے دشمنوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ کیا یہی اسلامی اخوت ہے؟
ایران کا سخت موقف، پاکستان کا صبر
ایران نے افغانستان سے ہمیشہ محتاط تعلقات رکھے۔ جب بھی اسے کسی گروہ سے خطرہ محسوس ہوا، جیسے جنداللہ، اس نے اس کا بے رحمی سے خاتمہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج افغان دہشت گرد ایران کا رُخ نہیں کرتے۔ لیکن پاکستان؟ پاکستان ہمیشہ “بھائی چارے” اور “اسلامی اخوت” کے جذبے سے آگے بڑھتا رہا – اور بدلے میں کیا پایا؟ صرف دھوکہ، حملے، اور لاشیں۔
پاکستان کو اب جاگنا ہوگا
پاکستان نے 40 لاکھ افغان مہاجرین کو دہائیوں تک پناہ دی، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی قومی سلامتی کو اولین ترجیح دیں۔ ہمیں سخت فیصلے لینے ہوں گے
افغان مہاجرین کی موجودگی پر نظرثانی کی جائے۔
ٹی ٹی پی کی پناہ پر افغان حکومت سے دوٹوک بات کی جائے۔
سرحدوں پر حفاظتی اقدامات سخت کیے جائیں۔
دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔
آخری پیغام: اب دھوکہ مزید برداشت نہیں
پاکستان نے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے، لیکن افغانستان نے ہمیں پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کو پہچانیں اور انہیں منہ توڑ جواب دیں۔
یہ بلاگ صرف جذباتی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی زمین اب مزید لاشیں برداشت نہیں کر سکتی۔
اگر آپ کو یہ بلاگ پسند آیا ہو تو دوسروں کے ساتھ ضرور شیئر کریں تاکہ ہماری قوم جاگے، اور ہم سب مل کر اپنی سلامتی کی حفاظت کر سکیں۔