How Trump’s Import Tariffs Crashed the US Economy — The Human Cost of Trade Wars
دنیا میں جب بھی کوئی طاقتور ملک کوئی بڑا فیصلہ کرتا ہے، تو اس کے اثرات صرف بورڈ رومز یا پارلیمنٹ کی عمارتوں تک محدود نہیں رہتے۔ وہ فیصلے عام انسانوں کے گھروں، ان کی جیبوں، ان کے خوابوں اور ان کی زندگیوں تک پہنچتے ہیں۔ ایسا ہی ایک فیصلہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین اپریل کو کیا، جب انہوں نے بھاری درآمدی محصولات کا اعلان کیا۔ بظاہر یہ فیصلہ “امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے” کے نعرے کے تحت کیا گیا، لیکن اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، وہ خود امریکی عوام کے لیے ایک بھیانک خواب بن گیا۔
صرف دو دن کے اندر، امریکہ کی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، 500 بڑی کمپنیوں کو پانچ ٹریلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اعداد و شمار چونکانے والے تھے، لیکن ان کے پیچھے اصل کہانی ان لوگوں کی تھی جن کی زندگیاں ان نمبروں کے نیچے دب گئیں۔
امریکہ کا پنشن سسٹم پاکستان یا دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح نہیں ہے۔ وہاں لوگ ریٹائرمنٹ کے لیے حکومت پر انحصار نہیں کرتے بلکہ اپنی بچتوں کو اسٹاک مارکیٹ میں لگا کر مستقبل کے لیے منصوبے بناتے ہیں۔ ایسے لاکھوں امریکی شہری ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی کی محنت سے چار یا پانچ لاکھ ڈالر کی بچت کر رکھی تھی، تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پُرسکون، باعزت زندگی گزار سکیں۔ لیکن ٹرمپ کی پالیسیوں نے صرف دو دن میں ان کی جمع پونجی کا ایک چوتھائی حصہ کھا لیا۔ اب وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کا حساب کتاب ریٹائرمنٹ کے گرد باندھ رکھا تھا، انہیں وہ سب کچھ ازسرِنو سوچنا پڑ رہا ہے۔
یہ پالیسی ایک خواب بیچنے کی کوشش تھی — کہ اب سب کچھ “امریکہ میں بنے گا”، نوکریاں واپس آئیں گی، کارخانے دوبارہ چلیں گے۔ لیکن یہ خواب حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی شے مکمل طور پر ایک ملک میں تیار نہیں ہوتی۔ ایک آئی فون کو ہی لے لیجیے؛ وہ امریکہ میں ڈیزائن ہوتا ہے، لیکن اس کے پرزے جاپان، کوریا، اور دیگر ممالک سے آتے ہیں، اور اس کی اسمبلنگ چین میں ہوتی ہے۔ امریکہ میں مزدور کی تنخواہ فی گھنٹہ 15 ڈالر ہے، جبکہ چین میں صرف 1 ڈالر۔ تو کیا ایپل کمپنی یہ لاگت برداشت کرے گی؟ ہرگز نہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکی کمپنیوں کو مجبور کیا کہ وہ یا تو مہنگی پیداوار کریں، یا پھر روبوٹ لگا کر مزدوروں کو فارغ کریں۔
فورڈ موٹرز جیسے ادارے پہلے ہی اپنے پلانٹس میں انسانوں کی جگہ مشینیں لگا چکے ہیں، اور اب ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کی وجہ سے مزید کمپنیاں ایسا کرنے پر مجبور ہوں گی۔ نتیجہ؟ مزید بے روزگاری۔
اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں۔ ویتنام سے امریکہ کو آنے والے کپڑے، چین سے آنے والی ادویات، میکسیکو سے آنے والی زرعی مصنوعات — سب پر بھاری محصولات لگ چکے ہیں۔ اسٹورز پر عام لوگوں کے استعمال کی چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں: بچوں کے کپڑے، کھیلوں کے جوتے، ضروری دوائیاں، ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ جب روزمرہ کی زندگی مہنگی ہو جائے، تو صرف بجٹ ہی نہیں بگڑتا، اعتماد بھی ڈگمگا جاتا ہے۔
امریکہ میں جگہ جگہ احتجاج ہو رہے ہیں، لوگ سڑکوں پر ہیں، ہاتھوں میں پلے کارڈز ہیں، چہروں پر مایوسی ہے۔ اور ان مظاہروں میں صرف غیر ملکی نہیں، خود امریکی شہری شامل ہیں۔ کیونکہ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے نام پر بنائی گئی پالیسیاں، اصل میں ان کے خلاف جا رہی ہیں۔
ایسے میں صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ “تھوڑا صبر کرو، ایک دن امریکہ عظیم بن جائے گا” — ایک تکلیف دہ طنز سا لگتا ہے۔ وہ جو اپنی بیٹی کے کالج کے اخراجات کے لیے بچت کر رہا تھا، وہ جو اپنے بوڑھے والدین کی دوائیوں کے لیے فکرمند تھا، وہ جو ریٹائرمنٹ کے بعد بیوی کے ساتھ زندگی کے کچھ خوشگوار سال گزارنے کا خواب دیکھ رہا تھا — وہ سب اب صرف “صبر” کی تلقین سن رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ہمیں ایک بڑا سبق دیتا ہے: معیشت صرف جی ڈی پی، اسٹاک انڈیکس اور بجٹ خسارے کا نام نہیں۔ معیشت دراصل انسانوں کی زندگیوں کا آئینہ ہوتی ہے۔ اگر پالیسی کسی غریب کا چولہا بجھا دے، کسی متوسط طبقے کے بچے کے خواب چھین لے، کسی بزرگ کی ریٹائرمنٹ غیر یقینی بنا دے، تو وہ ترقی نہیں — تباہی کہلاتی ہے۔
دنیا کو ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو فیصلے طاقت دکھانے کے لیے نہیں، بلکہ لوگوں کو طاقتور بنانے کے لیے کریں۔ جو اعداد و شمار سے پہلے انسانوں کو دیکھیں، اور معیشت سے پہلے معاشرت کو سمجھیں.